سُن لے ہندو، خواہ مخواہ تُو نے دھرا الزام ہے
تُو ہے کافر ، میں ہوں مومن کیوں تجھے ابہام ہے

کس لئے بُت سے ملا بیٹھا ہے تُو رب کا ولی
لگتا ہے تیر ا پڑوسی ہے نکھٹو خارجی

تُو نے مانا دیوتاؤں کو پرستش کی جگہ
ہم نے ولیوں کے مزاروں کو نہ مانا سجدہ گاہ

تُو نے ہر ہر مورتی کو کر لیا مسجود ہے
اپنا تو رب جہاں ہی بس فقط معبود ہے

گر نہیں سمجھا برہمن صنم و مرقد میں فرق
کچھ نہیں اس پہ تعجب، وہ ہے ظلمت میں غرق

اس فرق کو کیسے سمجھے جس کا دل بیمار ہے
اس فرق کو سمجھنے میں نور دل درکار ہے

سخت تعجب خارجی پر ، دعویء ایمان ہے
پھر بھی ظالم اس فرق سے بے خبر نادان ہے

قبر مومن بالیقیں ہے جنتی باغوں سے باغ
جبکہ پتھر مورتی کا بالیقیں دوزخ کی آگ

جس قدر ہے دوزخ و جنت کی ہیت میں فرق
اس قدر ہے صنم و تُربت کی حقیقت میں فرق

صنم میں جاں تھی نہ ہے نہ ہی ادراک بھی
بندہء خاکی تو سُن لیتا ہے زیر خاک بھی

نہ ملاؤ اولیا کو طبقہء اوثان سے
یہ تو عون کبریا ہیں پوچھ لو قرآن سے

گر عصائے موسوی پہ حق کی ہو جلوہ گری
سر جھکائے اس کے آگے عہد کی جادو گری

ایک لکڑی کی مدد سے جب ہوا حق کا ظہور
کس لئے عون ولی سے ہو عقیدے میں فتور

ہے مسلم لکڑیوں میں اس عصا کی سروری
پھر بھی ہے جنگلی دھتورے کو ولی سے ہمسری

اللہ والوں کی مدد گر ہے شریعت میں حرام
کس لئےآئے فرشتے بدر میں بہر حرام

ہے یہی آصف کا جھگڑا آج فکر خام سے
نہ ملاؤ رب کے بندوں کو کبھی اصنام سے

blog comments powered by Disqus
 
Make a Free Website with Yola.