محترم قارئین ۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
دیوبندی وہابی حضرات کا لوگوں کو اپنے باطل مذہب میں لانے کیلئے اور اپنے کفریہ عقائد چھپانے کے لئے عوام الناس کو کے سامنے فروعی مسائل پیش کرتے ہیں کہ ہمارا تو اہلسنت کے ساتھ فاتحہ، نور و بشر، علم غیب، میلاد النبی اور گیارہویں وغیرہ کا اختلاف ہے ۔۔۔ یہ اختلافات اپنی جگہ لیکن یہ فروعی مسائل ہیں اہلسنت و جماعت کا وہابی دیوبندی مذہب کے ساتھ اصل اختلاف یہ ہے کہ وہابیوں دیوبندیوں کے عقائد کفریہ ہیں اور ان لوگوں نے اللہ عزوجل کی شان میں بھی بے شمار گستاخیاں کیں ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی بے شمار گستاخیاں کی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام ، صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اولیاء اللہ کی شان میں بھی بے شمار گستاخیاں کی ہیں اور ہم اہلسنت کا ان لوگوں کے ساتھ یہی بنیادی اختلاف ہے کہ یہ لوگ اللہ کے بھی گستاخ ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی گستاخ ۔۔۔ انبیاء ، صحابہ اور اولیاء کے بھی گستاخ ہیں ۔۔۔ ذیل میں ان لوگوں کے بے شمار کفریہ عقائد میں سے صرف ایک عقیدہ پیش کیا جا رہا ہے اصل سکین پیج کے ساتھ ۔۔۔ اور یہ کسی ایسے ویسے مولوی کی کتاب نہیں بلکہ وہابیہ دیوبندیہ کے امام الاول مولوی اسمٰعیل دہلوی کی بدنام زمانہ کتاب صراط مستقیم ۔۔۔ جس کتاب پر وہابی دیوبندی مذہب کا دارومدار ہے اور مولوی اسمٰعیل دہلوی غیر مقلد وہابیہ کا بھی امام ہے اور مقلد وہابیہ یعنی دیوبندیوں کا بھی امام ہے ۔۔۔

اے مسلمان اپنے دل پر ہاتھ رکھ اور سن کہ شان رسالت میں کس قدر گستاخی کی جا رہی ہے اور جس مذہب یعنی وہابیہ دیوبندیہ کی بنیاد ہے ایسے کفریہ عقائد پر ہو وہ مذہب کیسے حق پر ہو سکتا ہے ۔۔۔ امام الوہابیہ دیوبندیہ مولوی اسمٰعیل دہلوی اس کتاب کے صفحہ نمبر 170-169 پر نماز میں آنے والے وسوسوں کا بیان کرتے ہوئے شان رسالت میں گستاخی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
" زنا کے وسوسے سے اپنی بیوی کی مجامعت کا خیال بہتر ہے اور شیخ یا انہی جیسے بزرگوں کی طرف خواہ رسالت مآب ہی ہوں اپنی ہمت یعنی اپنے خیال کو لگا دینا اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق یعنی ڈوب جانے سے برا ہے " معاذ اللہ ثم معاذ اللہ



اگر مجھے ان گستاخوں کے اس کفریہ عقیدہ کے بارے میں لوگوں کو بتانا مقصود نہ ہوتا تو میں اس عبارت کو لکھنا تو دور پڑھنا بھی گوارہ نہ کرتا ۔۔۔ اے مسلمان  میں اب تجھ سے پوچھتا ہوں کیا نماز میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال نہیں آتا ۔۔۔ جب تو ہر نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سلام اور درود عرض کرتا ہے تو کیا تیرا خیال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں جاتا ۔۔۔ ارے نماز کا طریقہ ہی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا اور وہ نماز نماز ہی کیسی جس میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال نہ آئے ۔۔۔ آئیے آپ کو صحابہ کرام علیہم الرضوان کی نماز کے بارے میں دکھائیں کہ وہ تو نماز میں بھی پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کیا کرتے تھے۔۔۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرضِ وصال میں جب تین دن تک حجرۂ مبارک سے باہر تشریف نہ لائے تو وہ نگاہیں جو روزانہ دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرفِ دلنوازسے مشرف ہوا کرتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس گئیں۔ جان نثاران مصطفیٰ سراپا انتظار تھے کہ کب ہمیں محبوب کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔ بالآخر وہ مبارک و مسعود لمحہ ایک دن حالتِ نماز میں انہیں نصیب ہوگیا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایامِ وصال میں جب نماز کی امامت کے فرائض سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سپرد تھے، پیر کے روز تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں حسب معمول باجماعت نماز ادا کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدرے افاقہ محسوس کیا۔ آگے روایت کے الفاظ ہیں :

فکشف النبی صلي الله عليه وآله وسلم ستر الحجرة، ينظرإلينا و هو قائمٌ، کأن وجهه ورقة مصحف، ثم تبسم.

بخاری، الصحيح، 1 : 240، کتاب الجماعة والامامة، رقم : 2648
مسلم، الصحيح، 1 : 315، کتاب الصلوة، رقم : 3419
ابن ماجه، السنن، 1 : 519، کتاب الجنائز، رقم : 41664
احمد بن حنبل، 3 : 5163
بيهقی، السنن الکبریٰ، 3 : 75، رقم : 64825
ابن حبان، الصحيح، 15 : 296، رقم : 76875
ابوعوانه، المسند، 1 : 446، رقم : 81650
نسائی، السنن الکبریٰ، 4 : 2261 رقم : 97107
عبدالرزاق، المصنف، 5 : 433، رقم
حميدی، المسند، 2 : 501، رقم : 111188
عبد بن حمید، المسند، 1 : 352، رقم : 121163
ابويعلی، المسند، 6 : 250، رقم : 3548

آپ نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اٹھا کر کھڑے کھڑے ہمیں دیکھنا شروع فرمایا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور قرآن کا ورق ہو، پھر مسکرائے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النبی صلي الله عليه وآله وسلم، فنکص أبوبکر علی عقبيه ليصل الصف، وظن أن النبی صلي الله عليه وآله وسلم خارج إلی الصلوٰة.

بخاری، الصحيح، 1 : 240، کتاب الجماعة والامامة، رقم : 2468
بيهقی، السنن الکبریٰ، 3 : 75، رقم : 34825
عبدالرزاق، المصنف، 5 : 4433
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 5194
عبد بن حمید، المسند، 1 : 302، رقم : 1163

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم لوگ نماز چھوڑ بیٹھتے۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں پر پیچھے پلٹے تاکہ صف میں شامل ہوجائیں اور انہوں نے یہ سمجھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے باہر تشریف لانے والے ہیں۔

ان پر کیف لمحات کی منظر کشی روایت میں یوں کی گئی ہے :

فلما وضح وجه النبی صلي الله عليه وآله وسلم ما نظرنا منظرا کان أعجب إلينا من وجه النبی صلي الله عليه وآله وسلم حين وضح لنا.

بخاری، الصحيح، 1 : 241، کتاب الجماعة والامامة، رقم : 2649
مسلم، الصحيح، 1 : 315، کتاب الصلاة، رقم : 3419
ابن خزيمه، الصحيح، 2 : 372، رقم : 41488
ابوعوانه، المسند، 1 : 446، رقم : 51652
بيهقی، سنن الکبریٰ، 3 : 74، رقم : 64824
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 7211
ابو يعلی، المسند، 7 : 25، رقم : 2439

جب (پردہ ہٹا اور) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور سامنے آیا تو یہ اتنا حسین اور دلکش منظر تھا کہ ہم نے پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔

مسلم شریف میں فھممنا ان نفتتن کی جگہ یہ الفاظ منقول ہیں :

فبهتنا و نحن فی الصلوة، من فرح بخروج النبی صلي الله عليه وآله وسلم.

مسلم، الصحيح، 1 : 315، کتاب الصلوة، رقم : 419

ہم دورانِ نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باہر تشریف لانے کی خوشی میں حیرت زدہ ہو گئے (یعنی نماز کی طرف توجہ نہ رہی)۔

علامہ اقبال نے حالتِ نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشقِ زار حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے دیدارِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منظر کی کیا خوبصورت لفظی تصویر کشی کی ہے :

ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری

کم و بیش یہی حالت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر صحابی رضی اللہ عنہ کی تھی۔ شارحینِ حدیث نے فھممنا ان نفتتن من الفرح برؤیۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معنی اپنے اپنے ذوق کے مطابق کیا ہے۔

1۔ امام قسطلانی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :

فهممنا أی قصدنا أن نفتتن بأن نخرج من الصلوة.

قسطلانی، ارشاد الساری، 2 : 44

پس قریب تھا یعنی ہم نے ارادہ کر لیا کہ (دیدار کی خاطر) نماز چھوڑ دیں۔

2۔ لامع الدراری میں ہے :

و کانوا مترصدين إلی حجرته، فلما أحسوا برفع الستر التفتوا إليه بوجوههم.

گنگوهي، لامع الدراری علی الجامع البخاری، 3 : 150

تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی توجہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مبارک کی طرف مرکوز تھی، جب انہوں نے پردے کا سرکنا محسوس کیا تو تمام نے اپنے چہرے حجرۂ انور کی طرف کر لئے۔

3۔ مولانا وحید الزماں حیدر آبادی ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النبی صلي الله عليه وآله وسلم.

وحيد الزمان، ترجمة البخاری، 1 : 349

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے ہم کو اتنی خوشی ہوئی کہ ہم خوشی کے مارے نماز توڑنے ہی کو تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ نیچے ڈال دیا۔

امام ترمذی رحمۃ اﷲ علیہ کی روایت کے یہ الفاظ ہیں :

فکاد الناس ان يضطربوا فأشار الناس ان اثبتوا.

ترمذی، الشمائل المحمديه، 1 : 327، رقم : 386

قریب تھا کہ لوگوں میں اضطراب پیدا ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ کھڑے رہو۔

شیخ ابراہیم بیجوری رحمۃ اﷲ علیہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اضطراب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

فقرب الناس أن يتحرکوا من کمال فرحهم لظنهم شفاءه صلی الله عليه وآله وسلم حتی أرادوا أن يقطعوا الصلوة لإعتقادهم خروجه صلی الله عليه وآله وسلم ليصلی بهم، و أرادوا أن يخلوا له الطريق إلی المحراب و هاج بعضهم فی بعض من شدة الفرح.

بيجوری، المواهب اللدنيه علی الشمائل المحمديه : 194

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شفایاب ہونے کی خوشی کے خیال سے متحرک ہونے کے قریب تھے حتیٰ کہ انہوں نے نماز توڑنے کا ارادہ کر لیا اور سمجھے کہ شاید ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں نماز پڑھانے کے لیے باہر تشریف لا رہے ہیں، لہٰذا انہوں نے محراب تک کا راستہ خالی کرنے کا ارادہ کیا جبکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خوشی کی وجہ سے کودنے لگے۔

امام بخاری نے باب الالتفات فی الصلوۃ کے تحت اور دیگر محدثین کرام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی یہ والہانہ کیفیت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں بیان کی ہے :

و هَمَّ المسلمون أن يفتتنوا فی صلوٰتهم، فأشار إليهم : أتموا صلاتکم.

بخاری، الصحيح، 1 : 262، کتاب صفة الصلاة، رقم : 2721
ابن حبان، الصحيح، 14 : 587، رقم : 36620
ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 75، رقم : 41650
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 5217
طبری، التاريخ، 2 : 231

مسلمانوں نے نماز ترک کرنے کا ارادہ کر لیا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز کو پورا کرنے کا حکم دیا۔

تو اے مسلمان بچ ان گستاخوں سے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عقیدہ اپنا جو کہ الحمد اللہ آج اہلسنت وجماعت بریلوی مسلک کا عقیدہ ہے ۔۔۔


 

blog comments powered by Disqus
 
Make a Free Website with Yola.